مصر میں پیر کو مشرقی وسطیٰ کے بڑے میڈیا ادارے الجزیرہ کے تین صحافیوں کو سات سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔
اس سزا کے ساتھ ہی ملک میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے سوالات اٹھان شروع ہو گئے ہیں جہاں ان تینوں صحافیوں کو عدالت نے جھوٹ کا پرچار کرتے ہوئے دہشت گردوں کی مدد کا الزام عائد کیا ہے۔
تینوں صحافیوں نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے جبکہ الجزیرہ نے اس سزا کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے آزادی صحافت کا قتل قرار دیا ہے۔
جب تینوں صحافیوں کو ہتھکڑی لگا کر کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ چہرے سے انتہائی پرامید دکھائی دیتے تھے کیونکہ ان کے رشتے داروں نے انہیں بتایا تھا کہ آج
انہیں بری کیا جا سکتا ہے تاہم ایسا نہ ہوا۔
سزا یافتہ صحافیوں میں الجزیرہ کے کینیا میں مقیم نمائندہ آسٹریلین شہری پیٹر گریسٹ، کینیڈا اور مصر کی دہری شہریت کے حامل قاہرہ کے لیے الجزیرہ انگریزی کے بیورو چیف محمد فہمی شامل ہیں اور مصری پروڈیوسر بحر محمد شامل ہیں جہاں بحر کو ہتھیار رکھنے کے الزام میں تین سال کی اضافی سزا سنائی گئی ہے۔
سزا سنائے جانے کے وقت کمرہ عدالت میں خاصا شور شرابا تھا اور صحافیوں کو سزا سنائے جانے کے بعد ان کے کچھ رشتے دار پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔
گریسٹ کے بھائی مائیکل نے کہا کہ یہ انتہائی تکلیف دہ ہے، میں دنگ رہ گیا ہوں اور اس حوالے سے مزید کچھ بھی بولنے سے قاصر ہوں۔